دُعا کے مطلب کی اہمیت
ریورنڈ ۔ڈی ۔ارل کرپ، پی ایچ۔ ڈی۔
خداوندیسوع مسیح نے باپ سے دُعا کی ہمیں کئی مثالیں دی ہیں، ہمیں یہ کیوں کرنا چاہیے اور یہ کیسے کام کرتی ہے۔ ، آئیں اُن میں کچھ کو ہم دیکھتے ہیں۔
لوقا 1:18 پھِر اُس نے اِس غرض سے کہ ہر وقت دُعا کرتے رہنا اور ہمّت نہ ہارنا چاہیئے اُن سے یہ تَمثِیل کہی کہ۔
لوقا 2:18 کِسی شہر میں ایک قاضی تھا۔ نہ وہ خُدا سے ڈرتا تھا نہ آدمِی کی کُچھ پروا کرتا تھا
لوقا 3:18 اور اُسی شہر میں ایک بیوہ تھی جو اُس کے پاس آ کر یہ کہا کرتی تھی کہ میرا اِنصاف کر کے مُجھے مُدّعی سے بَچا۔
لوقا 4:18 اُس نے کُچھ عرصہ تک تو نہ چاہا لیکِن آخِر اُس نے اپنے جی میں کہا کہ گو مَیں نہ خُدا سے ڈرتا اور نہ آدمِیوں کی کُچھ پروا کرتا ہُوں۔
لوقا 5:18 تَو بھی اِس لِئے کہ یہ بیوا مُجھے ستاتی ہے مَیں اِس کا اِنصاف کرُوں گا۔ اَیسا نہ ہو کہ یہ بار بار آ کر آخِر کو میرا ناک میں دم کرے۔
یہ سبق دُعا کے متعلق ہے۔ جیسے یہ صرف دعا کے متعلق ہی نہیں بلکہ بڑے احترام کے ساتھ دعا بے شک ایک عمل ہے۔ یہ ہمیں کہہ رہا ہے۔کہ جو ہمیں مشکل حالات میں اور غصے اور برہمی میں ہاتھ اُٹھانے پر مجبور کرتی ہے ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں کرنا چاہیے۔یہ ایک پسندیدہ اور مفید متبادل ہے۔ اور یہ خُدا سے دُعا کرنا ہے۔ تمثیل میں بےچاری بیوہ ایک ایسی حالت میں تھی جس کی بلا تامل اُسے حل کی ضرورت تھی۔
مستقل مزاج رویّے کی ضرورت
اِس تمثیل میں ایک مسئلہ ہے۔ کہ اُس کی مدد کا صرف ایک ہی حل وہ کٹھور اور بےدین جج تھا۔ جو صرف دولت ، مرتبے اور شہرت کے لیے کام کرتا تھا۔ اُسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور خُدا کا کوئی خوف نہیں تھا۔ اُسے عدل و انصاف سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ، لوگوں کے ساتھ جو مرضی ہو جائے اُس کا وہ اپنے آپ کو مجرم نہیں ٹھہراتا تھا۔ وہ انصاف کابندوبست نہیں کرتا تھا۔ وہ کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف اُٹھانا پسند نہیں کرتا تھا۔ لیکن وہ بے چاری بیوہ اُسے اس طرح کرنے نہیں دے رہی تھی۔ وہ دِل شکستگی میں مبتلا ہو کر یہ سب کچھ ملتوی ہونےیا موقوف نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔ وہ بس بار بار آتی تھی۔ اور اپنی مشکل کی بھیک مانگتی تھی۔ جو اُس کے مسئلے کا حل تھا۔
چیخ و پکار کے پہیے کو چکنائی چاہیے
آخر کار جج نے اپنے آپ سے کہا، ’’ مجھے اِس بیوہ کی کوئی پراہ نہیں ہے۔ مجھے ایمانداری اور انصاف میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے اِس بات کا کوئی خوف نہیں ہے کہ خُدا میرے ساتھ اب یا قیامت کے دِن کیا کرنے جا رہا ہے۔ اِس عورت کا پاگل پن بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر میں اِس نے چھٹکارے کے لیے کچھ نہ کیا ۔ تو یہ میرا ناک میں دم کر دے گی۔یہ میری موت کا کیڑا بن جائے گی۔ اِس کا قابو کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ جو کچھ یہ چاہتی ہے میں وہ کر دوں۔ شاید پھر یہ میری جان چھوڑ دے۔ اور مجھے تنہا چھوڑ دے۔ ‘‘ پس اُس نے اُس کی مرضی کے مطابق اُس کا مسئلہ حل کیا۔اور شاید وہ چلی گئی ہو گی۔ اور اُسے تنہا چھوڑ دیا ہو گا۔
ایک اور عجیب تمثیل
یہ تمثیل اُن میں سے ایک ہے۔ جہاں پر لوگوں کو سمجھنا تھوڑا مشکل ہے۔ یسوع مسیح اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی لیے ایسی بھدی، اور بے ڈھنگی مثالیں کیوں استعمال کرتا ہے۔ جواب شاید دوہرا ہے۔ ایک شاید یہ کہ لوگ اِس طرح کی زمینی مثالوں کو سمجھیں اور نقطہ نظر کو آسانی سے سمجھ لیں۔ اور دوسرا یہ ہے کہ یسوع مسیح سوئے ہوئے اوربے غرض سامعین کو جھٹکا پہنچانا چاہ رہا ہو گا تاکہ وہ جاگیں اور حیران ہو ں کہ کس طرح کی دُنیا کے بارے میں یسوع بات کر رہے ہیں۔
کسی بھی مسئلے میں ، اُس کا محرک کچھ بھی ہو، یسوع مسیح اپنے شاگردوں کو سننے کی طرف راغب کرتا ہے۔ کہ یہ جج کیا کہہ رہا ہے۔ اور یہ کہ اِس سے سبق سیکھیں۔
لوقا 6:18 خُداوند نے کہا سُنو یہ بے اِنصاف قاضی کیا کہتا ہے۔
لوقا 7:18 پَس کیا خُدا اپنے برگُزِیدوں کا اِنصاف نہ کرے گا جو رات دِن اُس سے فریاد کرتے ہیں؟ اور کیا وہ اُن کے بارے میں دیر کرے گا؟
لوقا 8:18 مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ وہ جلد اُن کا اِنصاف کرے گا۔ تو بھی جب اِبنِ آدم آئے گا تو کیا زمِین پر اِیمان پائے گا؟
یقیناً یسوع ہمیں یہ نہیں بتا رہا۔ کہ خُدا بہت عقلمند ہے۔ کہ وہ اپنے لوگوں کا کسی طرح خیال نہیں کرتا۔ کہ وہ ایمانداری میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اور کہ اُس کی طرف سے مطلوبہ فیصلہ لینے کے لیے اُس کا دروازہ پیٹنے کی ضرورت ہے۔ جب تک کہ وہ پریشان نہ ہو جائے ۔ یسوع مسیح محض ایک اور نقطہ دیکھ رہے ہیں۔ اگر تم خُدا سے کچھ چاہتے ہو۔ تو وہ تمہاری طرف سے ایک جلتی اور سُلگتی ہوئی خواہش ، ایک مضبوط تجویز یا کوئی ایسی بات جس کے بغیر تم کچھ نہیں کر سکتے ہونی چاہیے۔ تمہیں خُدا سے کبھی کبھار نہیں مانگنا چاہیے۔’’ اچھا یہ ہو یا وہ لیکن عمدہ ہونی چاہیے۔ اگر یہ کرنے سے تمہیں تمہارا راستہ صاف نظر آتا ہے۔ اگرچہ مجھے کچھ کہنا چاہیے۔ کہ پہلا راستہ ہو یا دوسرا حقیقیت میں مجھے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔‘‘ خُدا بہت زیادہ مصروف نہیں ہے کہ ہماری سُن نہ سکے۔ لیکن اِس طرح کی نیم دِلی اور غفلت سے گرویدہ ہونے کے لیے بہت ساری باتیں ابھی غور طلب ہیں۔ جن باتوں کی تمہیں ضرورت ہے۔ وہ جنہیں تم حقیقت میں چاہتے ہو۔ اُن کے لیے خُدا کے پاس جائیں۔ اور پھر چمٹنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ کہنے کا ایک رحجان ہے ’’ جب تک کہ تم کو ردِعمل مِل نہیں جاتا۔‘‘لیکن میرا نہیں خیال کہ یہ درست ہے۔ آپ اس تمثیل سے یہ نکال سکتے ہیں۔ اگر آپ نے یہ کیا تو میرا خیال ہے کہ آپ اصل نقطہ سے ہٹ جائیں گے۔ یسوع مسیح کا نقطہ یہ ہے۔ اپنی ضرورتوں اور ایمانداری کے تعلق سے خُدا کے لوگوں کے ساتھ رویے کے متعلق کچھ نہ کریں۔ مناسب رویہ اور وابستگی اور اپنے آپ کو وقف کرنے جیسی خصوصیات اُس شخص میں ہونی چاہیے۔ جس کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والا خُدا ہے۔ خُدا جواب دے گا۔ لیکن ہمیں صرف یہ حق ہے۔ کہ ہم جواب کو قبول کریں۔ اگر ہم اُس کے متعلق مخلص ہیں۔ اگر ہم کل اُسے بھول جاتے ہیں۔ شاید اسی سے شروع کرنا ہمارے لیے بہت خاص نہیں ہے۔ یا شاید جس کی ہمیں ضرورت ہے اُس کے لیے ہم نے حقیقی طور پر سوچا نہیں ہے۔
اس پر میری اپنی گواہی
اس طرح کے حالات ہمیشہ بڑے فریبی ہوتے ہیں۔ اور کچھ لوگوں کی طرف سے اِس کو بڑا بُرا بنا کر پیش کیا جاتاہے۔ اپنی تصویر اُسی طرح کی پیش کریں۔ جس طر ح کے آپ ہیں۔ لیکن میں اسے ہر حال میں کرنے جا رہا ہوں۔ گمراہ مسیحی کے طور پر 14 سالوں میں میری ماں اور باپ نے ایمانداری کے ساتھ دُنیا کے ہردن میرے لیے دُعا کی۔ اور دعا کرنا ترک نہ کیا۔ 14 سال تک۔ آخر کار اُن کی دعاؤں کا جواب ملا۔ خُدا نے مجھے الگ کر لیا ۔ اور مجھے گھٹنوں کے بل لے آیا۔ میں نے گزشتہ 45 سال خدمت میں نہ گزارے ہوتے ۔ اور میں آج کے دِن تک خُدا کا خادم نہ ہوتا ۔ اگر میرے دنیاوی ماں باپ نے ہٹ دھرمی اور مضبوطی سے دُعا نہ کی ہوتی۔ وہ بڑی آسانی کے خُدا کی خاموشی دیکھ کر دُعا سے انکار کر سکتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ خُدا جلد یا بدیر جواب ضرور دیتا ہے۔ اور اُس نے دیا بھی۔ یہ بڑا زبردست بیان ہے۔ اور میں اُسے ڈرامائی انداز میں دیکھ رہا ہوں۔ جو یہاں پر یسوع مسیح نے کہا ہے۔
ایک اور مثال
لوقا 5:11 پھِر اُس نے اُن سے کہا تُم میں سے کَون ہے جِس کا ایک دوست ہو اور وہ آدھی رات کو اُس کے پاس جا کر اُس سے کہے اَے دوست مُجھے تِین روٹِیاں دے۔
لوقا 6:11 کِیُونکہ میرا ایک دوست سفر کر کے میرے پاس آیا ہے اور میرے پاس کُچھ نہِیں کہ اُس کے آگے رکھُوں۔
لوقا 7:11 اور وہ اَندر سے جواب میں کہے مُجھے تکلِیف نہ دے۔ اَب دروازہ بند ہے اور میرے لڑکے میرے پاس بِچھَونے پر ہیں۔ مَیں اُٹھ کر تُجھے دے نہِیں سکتا۔
لوقا 8:11 مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اگرچہ وہ اِس سبب سے کہ اُس کا دوست ہے اُٹھ کر اُسے نہ دے تَو بھی اُس کی بیحیائی کے سبب سے اُٹھ کر جِتنی درکار ہیں اُسے دے گا۔
اِن چار آیات میں خداوند یسوع مسیح جس نقطہ پر بات کر رہے ہیں وہ بہت ہی زیادہ سادہ ہے۔
ایک تھکا دینے والے دِن کا اختتام ہوا، اب تم پُر سکون ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ بڑے آرام دہ طریقے اپنے بستر پر ہو۔ اور آدھی رات کے وقت تم بڑی میٹھی نیند سو رہے ہو۔ لیکن زور زور دروازہ پیٹنے کی وجہ سے تمہارے خوابوں میں بڑے بُرے طریقے سے دخل اندازی ہوتی ہے۔ لیکن آپ کسی طریقے سے غصے کے ساتھ اُٹھ کر دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔ کہ یہ کون ہے کہ جو آدھی رات کے وقت مشکل کھڑی کر رہا ہے۔ یہ قریبی گھر کا پڑوسی ہے جس نے آپ کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آپ اپنے غصے بھری آواز پر قابو پاتے ہوئے اُسے سختی سے کہتے ہیں۔ رات بہت ہو چکی ہے اور اہلِ خانہ اپنے بستروں پر ہیں اور سو چُکے ہیں۔ تم وہ کرنے کے لیے جو اُس نے کہا ہے رات کو اس وقت اُٹھ کر اور اپنے خاندان کو پریشان نہیں کر سکتے۔ یہ درخواست بالکل نا معقول ہے۔
لیکن وہ آدمی ڈٹا رہتا ہے۔وہ شش و پنج میں ہے۔غیر متوقع طور پر اس جگہ وہ ظاہر کرتا ہے۔ کہ اُس نے بھوک کی حالت کی وجہ کوشش کی تھی۔ اور اُس کے گھر میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ آپ کو پریشان کرنے سے نفرت کرتا ہے۔ جیسا کہ آپ بھی پریشان ہونے سے نفرت کرتے ہیں۔ لیکن اب اُسےکیا کرنا ہے؟ آپ اُس کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
کیا آپ اُس کی مدد کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟
یسوع مسیح اِس بہت ہی خراب واقعہ کے منظر کو بڑے ہی ڈرامائی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ جو اِس تمثیل کے تمام حاضرین و ناظرین اُس آدمی کی مایوسی کو سمجھ سکتے ہیں جو آدھی رات کے وقت اپنے بستر سے اُٹھتا ہے۔ لیکن اُن کے دِلوں میں اُس بیچارے غریب کے لیے بھی ہمدردی ہے۔ اور جانتے ہیں کہ اُنہیں اُس کی مدد کرنی چاہیے۔ کیونکہ اچھا ہے ایک دوست دوسرے دوست کے ساتھ ایسا ہی کرتا ہے۔ اور یہی وہ نقطہ ہےجسے یسوع مسیح بیان کر رہے ہیں۔ اگرچہ آپ اُس کی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے خوش نہیں ہیں۔لیکن آپ کسی بھی طریقے یہ کرتے ہیں۔ اور جب آپ ایک بار مکمل طور پر جاگ جاتے ہیں۔ اور اپنی ناخوشی پر قابو پا لیتے ہیں۔ آپ اتنا ہی خوش اور خیرخواہ ہوتے جتنا وقت کا تقاضا ہوتا۔
اُس کے لیے ضد
یسوع مسیح کہتے ہیں کہ اُس آدمی کے ضد کی وجہ سے اہلِ خانہ اُس کی مدد کریں گے۔ اِس کا مطلب ہے کہ خُدا سے مدد لینے کے لیے ہمیں اُس کے ساتھ بضد اور ڈٹے رہنا چاہیے۔ اچھا ایک بیوہ کی ہماری ایک پچھلی مثال میں جس نے بڑی سنگدلی اور بے رحمی سے ایک مُنصف کو پریشان کر دیا۔ آخر کار اُس آدمی نے کہا۔ ’’ اِس عورت سے چھٹکارہ پانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ کہ جو کچھ یہ عورت چاہتی ہے اُسے پورا کروں ۔ورنہ یہ میرا ناک میں دم کرنے والی ہے۔ ‘‘ اسی طرح اُسے بھی بغیر کسی وقفے کے خُدا کو کہتے رہنا چاہیے۔کیونکہ خُدا اُن کو یہ بدلہ دیتا ہے۔ جو اُس کے سامنے دِن رات اپنی درخواست رکھتے ہیں ۔ کہ اُن کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ اور وہ کیا چاہتے ہیں۔ کہ وہ اُن سے کرے۔ اور اِس خیال کی ہم بے قدری کرنا نہیں چاہتے۔ حالانکہ یہ وہ خیال نہیں جو یسوع مسیح یہاں پر دے رہے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر سخت آدمی، جلا بھُنا آدھی رات کے وقت اپنے بستر سے اُٹھتا ہے۔ تو اُس کے دِل میں اپنے پڑوسی کی مدد کے لیے کافی ہمدردی ہوتی ہے۔ اِس حالت میں اُس آدمی کی دلیری اور تکلیف دہ عمل کے باوجود ، یقیناً ہمیں خُدا کی ہمارے لیے مدد کی کافی دیکھ بھال کے لیے سمجھ بوجھ کے قابل ہونا چاہیے۔
پوچھنا ایک چابی ہے
یہاں تک کہ جو نقطہ اُٹھتا ہے۔ وہ یہ ہے۔ کہ ہمیں پوچھنا چاہیے۔ خُدا سرپرستی ہمارے اندر اچھی چیزوں کو ٹھونسنے کے لیے ہمارا پیچھا نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ ہم اُسے توجہ نہیں دے رہے۔ ہماری اِس کے متعلق قیاس ارائیاں ہیں۔ اور ہم پوچھ نہیں رہے۔ یہ اِس طرح کام نہیں کرتا۔ اور رسول ہمیں بتاتے ہیں۔ کہ ایک اور وجہ ہے۔ جو ہم خُدا سے مانگتے ہیں۔ وہ پاتے کیوں نہیں ۔ کیونکہ ہم غلط مقاصد کے لیے مانگتے ہیں۔ ہمیں اِس سے کیا کرنا چاہیے۔ جو خُدا جسمانی سرگرمیوں کے متعلق ہمیں دیتا ہے۔ پس یسوع مسیح ہمیں بتاتے ہیں۔ کہ ہمیں درست مقصد کے لیے مانگتے رہنا چاہیے۔ مانگتے رہنا چاہیے۔ یاد رکھیں کہ یہ رسولوں کی تعلیمات کے سیاق و سباق کے مطابق ہے۔ کہ ہمیں دعا کیسے کرنی ہے۔ اور اِس دعا کے ساتھ جُڑا ہو یہ خاص مشورہ ہے۔ خُدا کی دعا اِس مثال میں بہت چھوٹی ہو سکتی ہے۔ لیکن اِس کا جواب بڑا جامع ہے۔خُدا کی مرضی کی حقیقیت کی سمجھنے کے بعد ضرورت مندوں کی مدد کریں۔ جو اُس کے پاس سنجیدگی سے آتے ہیں۔ اور اپنی درخواستیں اُس کے سامنے رکھتے ہیں۔ جس کا بیان اِس مایوس پڑوسی نے کیا ہے۔ یسوع مسیح اِس عظیم پیرا گراف کو اور بائبل کے وعدوں کا جاری رکھتے ہیں۔
لوقا 9:11 پَس مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ مانگو تو تُمیں دِیا جائے گا۔ ڈھُونڈو تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تُمہارے واسطے کھولا جائے گا۔
لوقا 10:11 کِیُونکہ جو کوئی مانگتا ہے اُسے مِلتا ہے اور جو ڈھُونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے واسطے کھولا جائے گا۔
اور بائبل کے تمام وعدے جو کئی سالوں سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ دعوت دیتے ہیں۔ اور اطمینان دیتے ہیں۔ کسی کا بھی اِس سے زیادہ معنی نہیں ہے۔ جو بائبل نے ہمیں بتایا ہے۔ اُن میں سے یہ سب سے زیادہ پُرجوش اور پائیدار بات ہے۔ اگر تم مانگتے ہو۔ تو پاتے ہو۔ جو کوئی بھی خُدا کے پاس آتا ہے۔ اُس پر ایمان رکھتا ہے۔ اور مانگتا ہے وہ پاتا ہے۔ عبرانیوں 6:11 اِس پر بالکل واضح ہے۔ وہ خُدا کے لوگوں کے لیے اطمینان بخش اور آگاہ کرنے والے دونوں ہیں۔ ایمان کے بغیر خُدا کو خوش کرنا ناممکن ہے۔ جو خُدا کے پاس آتے ہیں۔ پہلے اُنہیں یقین رکھنا چاہیے۔ کہ وہ ہے۔ کہ وہ یہاں ہے۔ کہ وہ دیکھ رہا ہے۔ اور کہ وہ خیال رکھتا ہے۔ اور وہ اُن کو اجر دیتا ہے۔ جو جانفشانی اور تندہی سے اُس کی تلاش کرتے ہیں۔ اور ہر کوئی جو سنجیدگی سے جاتا ہے۔ اور خُدا کو، اُس کی بادشاہی کو ، سچ کو، فہم کو ، علم کو بڑے جذبے کے ساتھ ڈھونڈتے ہیں۔ یا وہ کچھ پاتے ہیں۔ جس کی وہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر تم اِس پر غور کرتے ہو۔ تو آگاہی کو یاد رکھیں۔ اور حوصلہ افزائی کو بھی ’’ ہم ایمان میں چلتے ہیں نہ کہ آنکھوں دیکھے پر‘‘ اس کے سچ ہونے کایقین ہے۔کہ ہمارے تجربات اور توقعات کے ساتھ کچھ نہیں کیا گیا۔ خُدا کی قابلِ اعتماد ہونے کی اہلیت اور کردار کے ساتھ کچھ کرنا پڑا۔ ہم نے اُسے پا یا۔ ہم نے اُسے حاصل کر لیا۔ ہر کوئی جو خُدا کے دروازہ پر کبھی گیا ہے۔ اور اُس پر دستک دی ہوئی اُس نے دروازہ کھولا ہو اور اندر لے گیا ہے۔
اوہ لیکن یہ ہوا ہے!
اگر آپ اُس کے متعلق نہیں جانتے ، تو مسئلہ تمہاری زندگی، تمہاری کلیسیاء ، تمہاری سرگرمیوں ، تمہارے لباس کے رنگ ڈھنگ ، تمہارے اُس وقت کے ساتھ جو تم دعا میں گزارتے ہو اور بائبل کے مطالعہ کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ خُدا کے ساتھ تمہارے اعتماد میں ہے۔ یہ وعدہ ہے، ایک بہت ہی کامل وعدہ ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا، یہ نہیں ہوگا۔ بصورتِ دیگر یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ یسوع مسیح ا س نقطے کوایک اور وضاحت کی طرف بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی تمثیل ہے۔
لوقا 11:11 تُم میں سے اَیسا کَونسا باپ ہے کہ جب اُس کا بَیٹا روٹی مانگے تو اُسے پتھّر دے؟ یا مَچھلی مانگے تو مَچھلی کے بدلے اُسے سانپ دے؟
لوقا 12:11 یا انڈا مانگے تو اُس کو بِچھُّو دے؟
لوقا 13:11 پَس جب تُم بُرے ہوکر اپنے بچّوں کو اچھّی چِیزیں دینا جانتے ہو تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو رُوحُ القُدس کِیُوں نہ دے گا؟
اگر بیٹے کا ایک اچھا اور محبت کرنے والا باپ ہے۔ ( اوریقیناً ، یاد رکھیں ہم اُس باپ کی بات کر رہے ہیں۔ جو تمام باپوں کا باپ ہے، بھلائی ، دردمندی اور رحمدلی آتی ہے) وہ اپنے بیٹے کو وہ دے گا۔ جو کچھ وہ مانگے گا۔ آخر کار وہ اپنے بیٹے کے لیے بہت بھلا ، مفید اور کار آمد باپ ہے۔ اِس طرح کی گفتگو میں ہم حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ یہاں ضروری نہیں ہے۔ بیٹا روٹی اور انڈہ مانگے گا۔ وہ چاند نہیں مانگے گا۔ وہ کھانے کو ایک چھوٹا سا نوالہ مانگے گا۔ خُداوند یسوع مسیح ہمیں کہتے ہیں۔ ’’ کیا اِس حالت میں خُدا ہمیں دے گا۔‘‘ بیٹے کی جو ضرورت ہے کیا وہ اُسے دے گا؟ اور اُس کی ضرورت کیا ہے؟ کیا وہ بیٹے کو وہ کچھ دے گا جسے وہ کھا نہیں سکتا۔ جو اُس کے لیے نقصان دہ ہے۔ یا وہ کچھ جوشاید اُسے جان سے مار دے؟ یسوع اِس کا جواب نہیں دیتا۔ کیونکہ اِس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنے سوال میں ہی اِس کا جواب دیتا ہے۔ وہ اُن شاگردوں سے پوچھتا ہے۔ ’’ اگر آپ صرف ایک خطا وار ، خودغرض ، گستاخ اور آدم کی فطرت رکھتے ہوئے جدوجہد کرتے ہوئے اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دیتے ہو۔ کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارا آسمانی باپ اپنے مانگنے والے بچوں کو بہت زیادہ دے گا؟‘‘
پانی کا منبع اُچھلتا ہے۔
اور یہ کیا ہے کہ ہمارا آسمانی باپ ہمیں وہ دے گا جو بہت ہی اچھا ہے؟ یہ سب سے اچھی چیز ہے۔ سب سے عظیم تحفہ جو کہ خُدا کی طرف سے انسانوں کے لیے ممکن ہو سکتا۔ یہ تحفہ روح القدس کا تحفہ ہے۔ جب ایک دفعہ ہمیں خُدا کی طرف سے یہ شخص مل جاتا ہے۔ اورہم میں رہنا شروع کر دیتا ہے۔ تو ہمارے خیالات کو درست سمت لاتا اور ہمارے اعمال کی راہنمائی کرتا ہے۔ تو پھر باقی سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔