top of page

اپنے دشمنوں سے پیار کرو

ریورنڈ ۔ڈی۔ارَل کِرپ،پی ایچ۔ڈی

 

 

متی 38:5 تُم سُن چُکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔

متی 39:5  لیکن میں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ شرِیر کا مُقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنا گال پر طمانچہ مارے دُوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے۔

متی 40:5  اور اگر کوئی تُجھ پر نالِش کر کے تیرا کُرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اُسے لے لینے دے۔

متی 41:5  اور جو کوئی تُجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اُس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔

متی 42:5  جو کوئی تُجھ سے مانگے اُسے دے اور جو تُجھ سے قرض چاہے اُس سے مُنہ نہ موڑ۔

متی 43:5  تُم سُن چُکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسِی سے محبّت رکھ اور اپنے دُشمن سے عَداوَت۔

متی 44:5  لیکِن مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ اپنے دُشمنوں سے محبّت رکھّو ، اپنے لعنت کرنے والوں کے لیے برکت چاہو،اپنے نفرت کرنے والوں کے لیے بھلائی چاہواور اپنے ستانے والوں کے لِئے دُعا کرو۔

متی 45:5  تاکہ تُم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بَیٹے ٹھہرو کِیُونکہ وہ اپنے سُورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔

متی 46:5  کِیُونکہ اگر تُم اپنے محبّت رکھنے والوں ہی سے محبّت رکھّو تو تُمہارے لِئے کیا اجر ہے؟ کیا محصُول لینے والے بھی اَیسا نہِیں کرتے؟

متی 47:5  اور اگر تُم فقط اپنے بھائِیوں ہی کو سَلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ کیا غَیر قَوموں کے لوگ بھی اَیسا نہِیں کرتے؟

متی 48:5  پَس چاہِیئے کہ تُم کامِل ہو جَیسا تُمہارا آسمانی باپ کامِل ہے۔

 

پرہیز گاری کی بلاہٹ

پہاڑی وعظ کا یہ حصّہ کلیسیاء کی تاریخ کے کچھ شریعت پرست اور اخلاقیات سے عاری قسم کے لوگوں نے منسوخ کر دیا۔ اگر تم اِن تعلیمات کی روح کو سمجھنا چاہتے ہو۔ تو یہاں پر کچھ باتیں ہیں۔ جن کو اپنے ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پہلی مقدس یوحنا کی انجیل 14-12:16 مجھے تُم سے اَور بھی بہُت سی باتیں کہنا ہے مگر اَب تُم اُن کی برداشت نہِیں کرسکتے۔ لیکِن جب وہ یعنی رُوح حق آئے گا تو تُم کو تمام سَچّائی کی راہ دِکھائے گا۔ اِس لِئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکِن جو کُچھ سُنیگا وُہی کہے گا اور تُمہیں آئیندا کی خَبریں دے گا۔وہ میرا جلال ظاہِر کرے گا۔ اِس لِئے کہ مُجھ ہی سے حاصل کر کے تُمہیں خَبریں دے گا۔‘‘ یسوع مسیح اپنے شاگردوں کو آگاہ کرتے ہیں۔ کہ اِس وقت وہ اِن تعلیمات کی روح کو نہیں سمجھ سکتے جو یسوع مسیح اُن کو دیتا ہے۔ جب تک روح القدس اُن کو نہیں دیا جاتا۔ اُس وقت تک اُن کو مزید کوئی بات نہیں دی جا رہی۔

پولوس رسول اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔  2 ۔کرنتھیوں 6-5:3 ’’ یہ نہِیں کہ بذاتِ خُود ہم اِس لائِق ہیں کہ اپنی طرف سے کُچھ خیال بھی کر سکیں بلکہ ہماری لِیاقت خُدا کی طرف سے ہے۔ جِس نے ہم کو نئے عہد کے خادِم ہونے کے لائِق بھی کِیا۔ لفظوں کے خادِم نہِیں بلکہ رُوح کے کِیُونکہ لفظ مار ڈالتے ہیں مگر رُوح زِندہ کرتی ہے۔‘‘

 

کلیسیاء کی تاریخ بہت سے بزرگ ہو گزرے ہیں۔جنہوں نے اپنی گردنیں جُھکا دیں۔اور اِس طرح کی تعلیمات کے الفاظ سے بیزاری کا مظاہرہ کیا۔ ’’ یسوع مسیح نے جو کچھ کہا اِس کا بھی بالکل یہی مطلب ہے‘‘ انہوں نے بڑی شدت سے احتجاج کیا، ’’اور اِن سادہ  الفاظ میں سے کچھ بھی پڑھنے کی کوشش کرنا   غلط ہے ۔‘‘ ہمارا  ردِعمل یہ ہے۔ یسوع مسیح کا دراصل یہ مطلب ہے  جو میں نے بتایا ہے۔بلکہ جو کچھ اُس نے کہا ہے۔بائبل کی طرف سے  یہ صاف طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اِن الفاظ  کے الفاظ کا مطلب یہ نہیں ہے۔کیونکہ یہ ہم پر موت لائے  ہیں۔ جو کچھ وہ کہتا ہے۔ وہ  وجود میں آ جاتا ہے۔ اور صرف وجود میں نہیں آجا تا ہے۔سچائی کی روح میں الفاظ ہمیں مقام و حالت میں لاتےہیں۔ جب ہم درست نہیں ہو سکتے۔ اگرہم کرتے ہیں تو ملعون ہوتے ہیں۔ اگر ہم نہیں کرتے تو بھی ملعون ہوتے ہیں۔ ایک ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔ تو دوسری کی نافرمانی کرتے ہیں۔ یہ مسیح اور سچائی کا راستہ نہیں ہے۔یسوع  مسیح نے خود کہا ہے۔’کہ اُس کا جوا ملائم اور بوجھ ہلکا ہے۔‘ اُسے توڑنا ، مروڑنا اور موت کے معاملہ میں لفظوں  کا بوجھ وہ نہیں ہے۔جس پر ہمارے لیے یسوع نے غور کیا ہے۔کہ سمجھیں اور فرمانبرداری کریں۔

 

یہاں  ہم  کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟ اچھا آئیں ہم کچھ مثالیں لیں اور دیکھیں۔

 

متی 39:5         لیکن میں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ شرِیر کا مُقابلہ نہ کرنا۔ ۔ ۔

 

اگر ہم اِس کے الفاظ لیتے ہیں۔ تو اگر ہم کسی کو دیکھتے ہیں۔ کہ کوئی جھولے میں سے کسی بچے کو چوری کر رہا ہے۔ اور اُس کی ماں اُسے دیکھ نہیں رہی ہے۔ تو ہم اِس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ اور نہ ہی کسی کو کہہ سکتے ہیں۔کیونکہ ہم پر یہ شرط ہے کہ شریر کا مقابلہ نہ کریں۔ اور یہ یقینی طور پر بُرائی ہے۔ اگر ہم کسی کو دیکھتے ہیں کہ وہ بوڑھے کو مار رہا ہے۔ اور اُس کا کھانا اور پیسہ چھین رہا ہے۔تو ہم دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہم برائی یا شریر کا مقابلہ نہ کرنے کی شرط ہے۔ اگر کوئی ہمارے گھر کو توڑ کر اندر گھس آتا ہے۔ تو کیا وہاں پر ہم کٹھ پُتلی بن کر بیٹھے رہیں گے۔ اور سب کچھ ہونے دیں گے۔ کیونکہ ہم ’’بےضرر لوگ‘‘ ہیں۔

 

آپ کہہ سکتے ہیں  ،بالکل ٹھیک ، لیکن اگر یہ اِس طرح ہے۔ کہ جس طرح ہم کرنا چاہتے ہیں،اُس طرح ہے کہ جس طرح ہم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کیا فرق پیدا کرتا ہے؟مشکل یہ ہے کہ کچھ اور ہدایات ہیں، بہت سی دوسری چیزوں کا حصّہ جو کہ یسوع مسیح نے کہا کہ وہ ہماری زندگیوں میں ضرور آنی چاہیے۔ جب روح القدس ہماری زندگیوں میں آتا ہے۔اُن اعمال کے ساتھ یہی متصادم ہے۔

 

مثال کے طور پر آئیں ہم یسوع مسیح کی زندگی سے کچھ لیتے ہیں۔مقدس یوحنا کی انجیل کے 2 باب سے ہم پڑھتے ہیں:

 

یوحنا 13:2        یہُودِیوں کی عِیدِ فسح نزدِیک تھی اور یِسُوع یروشلِیم کو گیا۔

یوحنا 14:2        اُس نے ہَیکل میں بَیل اور بھیڑ اور کبُوتر بیچنے والوں کو اور صّرافوں کو بَیٹھے پایا۔

یوحنا 15:2        اور رسّیوں کا کوڑا بنا کر سب کو یعنی بھیڑوں اور بَیلوں کو ہَیکل سے نکِال دِیا اور صّرافوں کی نقدی بکھیر دی اور اُن کے تختے اُلٹ دِئے۔

یوحنا 16:2             اور کبُوتر فروشوں سے کہا اِن کو یہاں سے لےجاؤ۔ میرے باپ کے گھر کو تجارت کا گھر نہ بناو۔

تین سال بعد ، متی 21 باب میں:

 

متی12:21           اور یِسُوع نے خُدا کی ہَیکل میں داخِل ہوکر اُن سب کو نِکال دِیا جو ہَیکل میں خرِیدوفروخت کررہے تھے اور صرّافوں کے تختے اور کبُوتر فروشوں کی چوکیاں اُلٹ دِیں۔

متی13:21      اور اُن سے کہا لکھا ہے کہ میرا گھر دُعا کا گھر کہلائے گا مگر تُم اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بناتے ہو۔

 

اِن دو مثالوں میں پہاڑی وعظ میں یسوع مسیح بالکل اپنی تعلیم کے مطابق ہے،  لیکن بعد میں ایسا نہیں تھا۔ درحقیقت اُس نے شریر کے خلاف  مزاحمت کی۔  جب اُس نے کوڑا بنایا اور اُن پر برسایا۔اُس نے اُن کے میز اُلٹ دئیے اور ہیکل کے فرش پر اُن پیسے بکھیر دیئے۔’’ یہ کاٹھ کباڑ باہر نکالو‘‘ اُس نے اُنہیں شدید غصّے سے کہا۔’’ میرا گھر دُعا کا گھر کہلائے گا تم نے اُسے ڈاکوؤں کی کھو بنا دیا۔‘‘ آپ دلائل میں یہ کہہ سکتے ہیں۔ کہ یہ یسوع تھا۔ اور ہماری پیروی کے لیے اُسے مثال قائم نہیں کرنی چاہیے تھی۔ٹھیک ہے، لیکن یہ   یہاں پر پہاڑی وعظ میں مؤثر نہیں ہے۔ کہ شریر کو مقابلہ نہ کرو، یسوع نے کہا، تاکہ تم اپنے کاموں اور رویّوں کامل بنوجیسا کہ تمہارا آسمانی باپ کامل ہےتم اپنے کاموں اور رویّوں میں کامل بنو جیسے تمہارا  آسمان پر باپ کامل ہے۔اِن دو مثالوں  ، ہیکل اور پیسوں کو تبدیل میں  یسوع  مسیح پوری طرح غالب ہے۔ یسوع مسیح نے  اپنی ہی پہاڑی وعظ کی  تعلیمات کو بگاڑا نہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ شریر کا مقابلہ نہ کرو۔  وہ اپنی نرم مزاجی ،  فروتنی  اور  معصومیت  کے لمحات سےالگ  نہیں ہوئے۔ درحقیقت  ہیکل والے دِنوں کے واقعات   فروتنی   ، رحمدلی ، سخاوت اور  نرم مزاجی کا ثبوت تھے۔ راستبازی  کو اُبھارنے ،  بھولا پن اور نظم و ضبط  کو دیکھنے کے لیے یہاں  پر سچائی کا روح  میں رحمدلی اور انصاف   ، محبت اور  عدالت ،  نرم مزاجی اورجوش کے درمیان   تضاد نہیں ہے۔

 

دوسری گال کا پھیرنا

دوسرے گال کو پھیرنا  بھی ایک سچ ہے۔اگر آپ سچائی کے حرف  کو دیکھتے ہیں۔  تو آپ دونوں نہیں کر سکتے۔  آپ اپنے آپ کوایک ہی وقت  زخمی  ہونے اور ناانصافی سے  بچنے کے لیے دوسرا گال نہیں پھیر سکتے۔آپ صحیح ہونے اور غلط ہونے کے معاملے میں پھنسا دیا گئےہیں۔خداوند یسوع مسیح کا یہ مطلب نہیں ہے۔ کہ آپ   اِس قسم کے قانونی جال میںپھنس جائیں۔ سچائی کی روح کے مطابق  یہاں پر تمہارے بھائی  کے ساتھ تمہارے رویے کے بارے پہاڑی واعظ کی روح  کو سامنے رکھتے ہوئے برابری کا  ایک راستہ ہے۔ مقدس متی کی انجیل 17-15:18 میں یسوع مسیح  ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں اِس طرح کے معاملہ سے کیسے نمٹنا ہے۔  

 

متی15:18       اگر تیرا بھائِی تیرا گُناہ کرے تو جا اور خَلوَت میں بات چِیت کر کے اُسے سَمَجھا۔ اگر وہ تیری سُنے تو تُونے اپنے بھائِی کو پالِیا۔

متی16:18      اور اگر نہ سُنے تو ایک دو آدمِیوں کو اپنے ساتھ لے جا تاکہ ہر ایک بات دو تِین گواہوں کی زبان سے ثابِت ہوجائے۔

متی17:18      اگر وہ اُن کی سُننے سے بھی اِنکار کرے تو کلِیسیا ء سے کہہ اور اگر کلِیسیاء کی سُننے سے بھی اِنکار کرے تو تُو اُسے غَیر قَوم والے اور محصُول لینے والے کے برابر جان۔

 

لیکن ایک منٹ انتظار کریں ، یہ  کام کیسے ہوتاہے؟ میرا خیال ہے کہ یسوع مسیح  پہاڑی وعظ میں کہتے ہیں،  ہمیں بُرےکا مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔اگر تمہارا بھائی کُرتے کے لیے اصرار کرتا ہے۔  تو اُسے اپنا چوغہ بھی دے دے۔اب خداوند یسوع مسیح کہتے ہیں۔ اگر ضروری ہے اور ہم اپنے بھائی کو کلیسیاء کے سامنے لے جاتے ہیں، اگر ہم انصاف حاصل نہیں کر سکتے، تو اپنے بھائی کو  غیر قوموں اور محصول لینے والوں کے برابر جان۔ ہم یہ دونوں کام ایک ہی وقت میں کیسے کر سکتے ہیں؟ اِن دونوں کا آپس میں تضاد ہے۔

 

ٹھیک ہے،  ایک لمحے کے لیے ہم اِن دونوں مثالوں کی طرف نہیں جا رہے۔کہ الفاظ میں تضاد  کیسا ہےجو تعمیل کو ناممکن بناتی ہے۔ نقطہ یہ ہے کہ یسوع مسیح سچائی کے روح کی تعلیم دے رہے ہیں۔  نہ  یہ کہ جب انصاف پاؤں تلے کُچلا جا رہا ہو تو ایک طرف الگ ہو کر کھڑے ہوجاؤ۔اور چالاک لوگ  ہمارے اس طرح کے ایمان کو دیکھتے ہوئے راستے نکال لیں۔ یسوع مسیح کردار ، اقدار کے نظام اور مقدس زندگی کے محرکات کی بات کر رہے ہیں۔آدم کی دُنیا میں ہر شخص اپنے لیے جیتا ہے۔ہر شخص یہاں تک مسیحی لوگ یسوع مسیح کی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ کیا کہتے ہیں، بلکہ عہدے حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ کوئی بھی اُن سے ، اُن کے لوگوں سے ،فائدہ نہیں لے رہا یا ایسی چیز  کو اُن سے دور لے جائے  جو انہوں سخت محنت سے کمائی کر کے ،  بندوبست کر کے اور ہو سکتا ہے کہ تھوڑی بہت بے ایمانی کر کے حاصل کی ہوئی ۔ اُن کے لیے زندگی سب سے اہم ہے۔ یہ آگے بڑھنے کے لیے ہے۔ یہ اپنے آپ  سےباہر نکلنے کے لیے ہے۔ یہ دوسرے لوگوں سے  اپنے آپ کو روکنا ہے۔اگر آپ کے پاس زیادہ رقم  ہے تو آپ بھلائی و خیر خواہی کے لیے  کچھ  رقم دیں گے۔  اگر آپ کے  ساتھی  آپ کے لیے بہت زیادہ نامناسب نہیں ہیں تو آپ اُن کے لیے  رحمدلی اور شفقت کا مظاہرہ کریں گے۔آپ اُن کے ساتھ اچھے ہو جو تمہارے ساتھ اچھے ہیں۔  لیکن کوئی بھی یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ آپ کو آپ کےمقصدٍ یا اُن کی مدد جواس کی  داد دیتے ہیں ،  یا وہ جو تمہارے لیے  شکر گزاری کا  اظہار کرتے ہیں سے بہت دور لے جائے گا۔ آپ وہ کریں گے۔ جو آپ کو ایک مسیحی کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے کرنا ہے۔لیکن اِس سے زیادہ کچھ نہیں۔ تم بینک نہیں ہو۔مسیحی لوگ آپ کے پاس رقم اُدھار لینے کی توقع رکھ کر نہیں آئیں گے؛ آپ اِس سے وہ نہیں لے سکتے۔ اگر مسیحی لوگ آپ کے پاس مدد کے لیے آتے ہیں،  لیکن اِس کے برعکس جو کچھ اُس نے نہیں مانگا  آپ اُنہیں نا خوشی  سے دیں گےاور آپ واقع ہی ناراض ہو گے۔

 

جیسا کہ تم نے وصول کیا ہے

یسوع مسیح ہمیں  دو باتیں یاد کروانا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے ، یہ طریقہ نہیں ہے خُدا ہمارے ساتھ ہے۔وہ ہمیں  اپنا فضل ، اپنی رحمدلی ، اور بھلائی دینے ہمیں ڈھونڈنے کے لیے دُنیا کے اندھیرے میں اُتر آیا، اور ہمارے لیے یہ ناقابلِ بیان ازلی دولت میں ہمارا حصّہ ممکن بنایا،  جب ہم مفلس ہی تھے۔  اُسے دینے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہ تھا۔ یا وہ کچھ جس سے ہم اُس   کی بخششیں اور رحمتیں خرید سکیں۔  ہم اُس کے دشمن تھے ، لگا تار اُس کے خلاف کام کرتے تھے اور  اُس پر غفلت سے نظر کرتے تھے۔ ہم اُس کا تمسخر اُڑاتے تھے۔ہم اُسے رسواکرتے تھے اُس کے بت بناتے تھے۔ اور ہم نے اُسے اس دنیاسے باہر نکال دیا تھا۔آج کی دُنیا بہت بُری ہے۔اوریورپ میں  خُدا کے مخالف قیاس ارائیاں ہر وقت عروج پر رہتی ہے۔لیکن خُدا ہمیشہ  اپنی بارش، سورج اور ہوا بھیجتا رہا تاکہ فصلیں اُگیں اور اُس کے لوگ اچھی چیزیں کھا سکیں۔  پھر وہ یہ کہہ سکتا تھا،’’اچھا، میں ایک دفعہ اُس  کی مدد کرنے  اُس کے پاس جاتا ہوں۔ اور لوگوں نے اُسے قبول نہ کیا۔  اُنہوں نے  میری شان گھٹا دی، مجھے اذیت دی، اور مجھے دھتکار دیا،  انہیں خود سب کچھ کرنے پر چھوڑ دیا گیا۔‘‘ لیکن خُدا اِس قسم کا شخص نہیں ہے۔اُس نے ایسا نہیں کیا۔

تمہارے آسمانی باپ کے بچے

 

اورپھر، یسوع ہمیں بتانا چاہتا ہے کہ ہمیں کس طرح کے لوگ ہونا چاہیے۔اگر ہم خُدا کو خوش کرنے اور اُس کی بادشاہت کے لیے مفید بننے کے لیے پاکیزہ  زندگی گزارتے ہیں۔اس دُنیا میں خُدا کی بادشاہت ، جہاں کلیسیاء کا  مقصد جاری ہے،اگر  ہم خُدا کو آسمان پر کام کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔تب آسمانی باپ کی طرح کے کام اور خدا کےبندوں کی  طرح کے کام کرنے ہوں گے۔نئے عہد نامہ کے کلیسیاؤں کو خطوط اِن ہدایات سے بھری پڑی ہیں کہ سچائی کے روح میں ان تمام ذمہ داریوں کوکیسے  پورا کرنا ہے۔ کوئی اُن سے مخالفت یا    اُنہیں رد  نہیں کرتا۔ مقدس متی  28-26:20 میں یسوع مسیح کہتے ہیں۔’’ ۔۔۔ بلکہ جو تُم میں بڑا ہونا چاہے وہ تُمہارا خادِم بنے۔ اور جو تُم میں اوّل ہونا چاہے وہ تُمہارا غُلام بنے۔چُنانچہ اِبنِ آدم اِس لِئے نہِیں آیا کہ خِدمت لے بلکہ اِس لِئے کہ خِدمت کرے اور اپنی جان بہُتیروں کے بدلے فِدیہ میں دے۔‘‘ نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا۔ہم خادم بناتے  نہیں بلکہ ہم خادم بنیں اور اپنی زندگیاں دوسروں کے لیے دیں، جیسے اُس نے دی۔

 

   سچائی کے روح کے ڈھانچے کے اندر  ہمیں کمرے دیئے گئے ہیں جو ہمارے اپنے ہیں۔ نہ صرف  اُس کی چیزیں بلکہ اُس کی حفاظت جیسی کہ ہم سوچ سکتے ہیں۔تاکہ ہم انصاف ہوتا ہوا اور پاکیزگی کو مستحکم ہوتا ہوا دیکھیں۔یاد رکھیں پہاڑی وعظ  کی تمام تعلیمات  میں، یسوع مسیح نے موسیٰ اور شریعت کو نہ ہی رَد کیا اورنہ ہی  اُس کے حق میں دلائل دیئے۔وہ بیان کر رہا ہے۔کہ یہ شریعت کی روح کچھ مزید ، اور کچھ مختلف چاہتی ہے جیسا کہ شریعت کے الفاظ    چاہتے ہیں۔  ہاں خُدا نے معاشرے میں تلوار رکھ دی ہے۔ کیونکہ یہ نوح کے زمانے کے سیلاب سے پہلےکا ثبوت تھا۔ کہ  انسان اس دنیا میں قوانین  اور اصولوں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔اور ہاں ، ایک راستہ ہے، چرچ کے لیے ہدایات وضع کیں تاکہ  تم  خُدا کے ساتھ اپنے  بہتر رشتے کے لیے راستی  اور انصاف  کو حاصل کر سکو۔ لیکن یسوع مسیح یہاں پر کیاکہتے ہیں۔ کہ انصاف اور راستی  ہماری زندگی کی محدود خصوصیات  نہیں ہونی چاہیے ہمارا  کردار رحمدلی ، فضل ، محبت ، بھلائی، تابعداری اور خودانکاری   ہے۔موسیٰ نے جو الفاظ کہے  وہ  انکارکرتے ہیں  لیکن روح ایسا نہیں کرتا یہی ہے جس کے بارے میں  یسوع مسیح کہہ رہے ہیں۔  یہ ہے کہ کیوں  اُس نے کلیسیاء کو یہ کلام دیا اورکیوں اُس نے انسان کو تحفے دیئے۔ تمہارا پیشگی قبضہ تمہارے ساتھ اور تمہارے تحفوں کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔ تمہیں تدابیر نہیں بنانی چاہیے کہ تم اُس سے کتنا کم حاصل کر پائےاس کے برعکس تمہیں سوچنا  چاہیے پیشتر  کہ تم کس حد تک کر سکتے ہو۔اور تم اپنے عہدوپیمان پر کس حد تک پورا اُترے ہو۔اُس کو نہ دیکھو کہ تمہارے پاس کتنا ہے اگر وہ تمہارا تھا۔ اُس کو ا   س نظر سے دیکھو کہ وہ خُدا کا ہے(جو کہ حقیقت ہے) اور اِس بات کا خیال رکھیں کہ وہ چاہتا ہے کہ آپ کریں۔ یسوع مسیح  نہیں چاہتے کہ ہم اپنے قدرتی باپ آدم جیسے بنیں؛ وہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے آسمانی باپ جیسے بنیں۔

 

bottom of page