top of page

ریورنڈ۔ ڈی ارَل کِرپ، پی ایچ۔ڈی

باغِ عدن میں، خُدا نے نسلِ انسانی کو گناہ سے منع کیا۔ اور اُنہیں موت اور اذیت کے بارے میں متنبہ کر دیا۔ کہ وہ اُن پر آ جائے گی۔ اگر وہ اِسے کسی بھی حالت میں گناہ  کریں گے۔ درختوں کے پیچھے چھُپے ہوؤں کو تلاش کرنے کے بعد اُ    ن کو باہر نکال دیا گیا۔ خُدا نے اُن کو سزا سُنا دی۔یہ دونوں فاعل اور مفعول تھے۔یہ معروضی تھا۔کیونکہ اُن کی نافرمانی کی وجہ سے یہ خُدا کی سزا تھی؛  یہ موضوعی تھا کیونکہ یہ بویا  گیا او ر کاٹا گیا۔ اُنہوں نے ایک طرح کی نسل اور دُنیا کو رہنے کے لیے  تخلیق کیا۔  جہاں پر لاعلاج نتائج  اذیت اور موت ہوئی ۔ یہاں پر پیدائش میں سے کچھ حوالہ جات  ہیں۔

معروضی فیصلہ

                پیدائش 17,16:2 :’’ اور خُداوند خُدا نے آدم کو حُکم دِیا اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے۔لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کو کبھی نہ کھانا کیونکہ جِس روز تُونے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔‘‘

موضوعی فیصلہ

            پیدائش 19-16:3 ’’ پھر اُس نےعَورت سے کہا کہ میں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھاؤنگا۔ تُو درد کے ساتھ بچّے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شَوہر کی طرف ہوگی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔اور آدم سے کہا چُونکہ تُونے اپنی بیوی کی بات مانی اور اُس درخت کا پھل کھایا جِس کی بابت میں نے تجھے حُکم دِیا تھا کہ اُسے نہ کھانا اِس لئے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہُوئی۔ مشقت کے ساتھ تُو اپنی عُمر بھر اُس کی پَیداوار کھائے گا۔اور وہ تیرے لئے کانٹے اور اُونٹ کٹارے اُگائے گی اور تُو کھیت کی سبزی کھائے گا۔تُو اپنے مُنہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں تُو پھِر لَوٹ نہ جائے اِس لئے کہ تُو اُس سے نِکالا گیا ہے کیونکہ تُو خاک میں پھر لوٹ جائے گا۔‘‘

فیصلہ اُمید کے ساتھ

                مسیح، جسے آخر کار اِس دُنیا میں لایا گیا۔ جہاں پر اذیت زیادہ دیر تک نہ رہی، اِس دُنیامیں رہنے والے ہر انسان سے زیادہ دکھ۔

ٍ                II کرنتھیوں 21-20:5 ’’ پَس ہم مسیح کے ایلچی ہیں۔ گویا ہمارے وسِیلہ سے خُدا اِلتماس کرتا ہے۔ ہم مسیح کی طرف سے منّت کرتے ہیں کہ خُدا سے میل ملاپ کر لو۔جو گناہ سے واقف نہ تھا اُسی کو اُس نے ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تاکہ ہم اُس میں ہوکر خُدا کی راستبازی ہو جائیں۔‘‘

1۔پطرس 18-16:3:’’ اور نیت بھی نیک رکھو تاکہ جِن باتوں میں تمہاری بدگوئی ہوتی ہے اُن ہی میں وہ لوگ شرمِندہ ہوں جو تمہارے مسیحی نیک چال چلن پر لعن طعن کرتے ہیں۔کیونکہ اگر خُدا کی یہی مرضی ہو کہ تُم نیکی کرنے کے سبب سے دُکھ اُٹھاؤ تو یہ بدی کرنے کے سبب سے دُکھ اُٹھانے سے بہتر ہے۔اِس لئے کہ مسیح نے بھی یعنی راستباز نے ناراستوں کے لئے گناہوں کے باعِث ایک بار دُکھ اُٹھایا تاکہ ہم کو خُدا کے پاس پہُنچائے۔ وہ جِسم کے اِعتبار سے تو مارا گیا لیکن رُوح کے اِعتبار سے زِندہ کیا گیا۔ اِسی میں اُس نے جا کر اُن قَیدی رُوحوں میں منادی کی۔‘‘

موت کے ذریعے سے زندگی— اِس کے ارد گرد نہیں

                جب ہم مسیح کے پاس آتے ہیں اور خُدا کے خاندان میں پیدا ہوتے ہیں، تو ہمارے ساتھ کامل مستقبل کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ مزید برآں، یہ ہمیں اِس دُنیا میں جینے کی ایک وجہ دیتا ہے۔یہ ہمارے لیے اِس بات کو ممکن بناتا ہے کہ ہم پاکیزگی کے لحاظ سے  اپنی اذیتوں کو نجات کی جانب موڑ دیں۔لیکن یہاں پر کچھ ہے جو کیا نہیں جاتا۔یہ لعنت کو کم کر کے فنا پذیری کی جگہ پر نہیں کرتا۔ ہرلحاظ سے ہم ابھی تک آدم کی اولاد ہیں، ہم اذیتیں سہتے ہیں اور آخر کار مر جاتے ہیں۔ خُدا نے ہمارے لیے ایک راستہ چنا ہے کہ اِن تجربات کو اپنی بھلائی کی طرف موڑ دیں۔ لیکن وہ انہیں لیتا نہیں ۔ ایسا کرنا ناانصافی ہو گی۔اگر خُدا کا انصاف ختم ہو جائے ، جیسے بھی ہم رہتے ہیں اور اُمید سب کچھ جاتا رہے۔  

                یہ ہمارا فرض اور ہماری بہت زیادہ سمجھداری  ہے کہ ہم اذیتوں کو صبر کے ساتھ سہیں، بجائے اِس کے  کہ ہمارے جذبا ت مجروح ہوں ،  ہم پاؤں پیٹیں ، اور خُدا  اور ایمان کے خلاف دہائی دیں۔ بائبل اسے کلسیوں 24:1 میں واضح کرتی ہے:   اب میں اُن دُکھوں کے سبب سے خُوش ہُوں جو تُمہاری خاطر اُٹھاتا ہُوں اور مسیح کی مُصِیبتوں کی کمی اُس کے بَدَن یعنی کلِیسیا کی خاطِر اپنے جِسم میں پُوری کئے دیتا ہُوں۔

1۔ پطرس 7-3:1 ’’ہمارے خُداوند یِسُوع مسیح کے خُدا اور باپ کی حمد ہو جِس نے یِسُوع مسیح کے مردوں میں سے جِی اُٹھنے کے باعث اپنی بڑی رحمت سے ہمیں زِندہ اُمید کے لئے نئے سِرے سے پَیدا کیا۔تاکہ ایک غَیرفانی اور بے داغ اور لازوال مِیراث کو حاصل کریں۔وہ تمہارے واسطے (جو خُدا کی قُدرت سے اِیمان کے وسِیلہ سے اُس نِجات کے لئے جو آخری وقت میں ظاہِر ہونے کو تیّار ہے حِفاظت کئے جاتے ہو) آسمان پر محفُوظ ہے۔اِس کے سبب سے تُم خُوشی مناتے ہو۔ اگرچہ اَب چند روز کے لئے ضرُورت کی وجہ سے طرح طرح کی آزمایشوں کے سبب سے غم زدہ ہو۔اور یہ اِس لئے ہے کہ تمہارا آزمایا ہُؤا اِیمان جو آگ سے آزمائے ہُوئے فانی سونے سے بھی بہت ہی بیش قیمت ہے یِسُوع مسیح کے ظہور کے وقت تعرِیف اور جلال اور عزت کا باعِث ٹھہرے۔‘‘

1۔ پطرس2-1:4  ’’پَس جبکہ مسیح نے جِسم کے اِعتبار سے دُکھ اُٹھا۔ تو تم بھی ایسا ہی مزاج اختیار کر کے ہتھیاربند بنو۔ کیونکہ جس نے جسم کے اعتبار سے دُکھ اُٹھایا اُس نے گناہ سے فراغت پائی  ۔تاکہ آیندہ کو اپنی باقی جِسمانی زِندگی آدمِیوں کی خواہشوں کے مطابِق نہ گذارے بلکہ خُدا کی مرضی کے مطابِق۔‘‘

            جب آدم اور حوا نے خُدا کی نافرمانی کی اور وہ خود اپنے سر  پر اور اپنی اولاد کے سر پر مصائب لے آئے ؛ جب یسوع مسیح آئے اور بالآخر ہماری اذیت اُٹھائی ، نئی پیدائش میں، ہمیں ہمیشہ کے لیے محفوظ  کر لیا؛ اور جب یہ اذیتیں فناپذیری سے مخلصی کا سبب بنی، ہم کیوں سوچتے ہیں  ہمیں  مصائب کیوں برداشت نہیں کرنے چاہیے ہمیں یہ کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ ہم کیوں مریض ہو گئے، اپنے بارے میں افسوس کرتے ہیں  اور منہ پُھلا لیتے ہیں۔جبکہ خدا  کا اِس سب کا  مطلب ہماری بھلائی کے لیے ہے؟

خُدا اذیتوں کو کیوں اجازت دیتا ہے اگر وہ بہت بھلاہے؟

                اُن لوگوں کی نام نہادراستبازی جو اِس نقطہ کو ظاہر کرنے کے لیے یہ سوال پوچھتے ہیں۔  وہ فطرتی طور پر اچھے نہیں ہیں— ہم میں سے کوئی بھی ! وہ  ہر کسی کی طرح گمراہ گناہ گار ہیں ۔ مزید برآں ،اگر حقیقت میں فطری اخلاقیت وہاں پر  ہوتی  ، تو  ہماری زندگیوں کو عدالت سے نہ بچا سکتی۔اور اُن کو ہمیشہ کے لیے لافانی نہ بنا سکتی۔ اگر لوگ حقیقت میں محسوس کرتے اگر وہ مسیحی نہ ہوتے تو اتنے اچھے  ہوتے اور یہ اخلاقیت اتنی ہی اچھی ہے جتنی مسیحی اخلاقیت۔ پھر اُنہیں واپس جانا چاہیےاور اپنی تبدیلی کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔اگر انہوں نے  نہیں جانا کہ وہ ملامت کے نیچے ، نااُمید،  نہایت بُرے گناہگار اِس دُنیا میں رہ رہےتھے یہ  کسی جگہ جانے کے لیے ایک  راستہ نہیں ہے؛ اور اگر انہوں نے اپنے آپ کو آدم کی پرانی دُنیا سے الگ  نہیں کیا  جب وہ صلیب کے پاس آئے تھے پھر یہ کیا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ مسیح اُنہیں بچائے — اور کس لیے؟

                کچھ لوگ اِس بات پر فخر کرتے ہیں کہ مسیح  اور تبدیلی کے بغیر کیا ہیں۔ خُدا کی رائے کچھ اور ہے۔ آئیں  رومیوں 20-10:3 میں ایک نظر ڈالتے ہیں ۔’’چُنانچہ لکھا ہے کہ کوئی راستباز نہیں۔ ایک بھی نہیں۔کوئی سمجھ دار نہیں کوئی خُدا کا طالِب نہیں۔سب گمراہ ہیں سب کے سب نکمّے بن گئے۔ کوئی بھلائی کرنے والا نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ اُن کا گلا کھلی ہُوئی قَبر ہے۔ اُنہوں نے اپنی زبان سے فریب دِیا۔ اُن کے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے۔ اُن کا مُنہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھرا ہے۔ اُن کے قدم خُون بہانے کے لئے تیز رَو ہیں۔ اُن کی راہوں میں تباہی اور بد حالی ہے۔اور وہ سَلامتی کی راہ سے واقف نہ ہُوئے۔ اُن کی آنکھوں میں خُدا کا خُوف نہیں۔ اب ہم جانتے ہیں کہ شَرِیعَت جو کچھ کہتی ہے اُن سے کہتی ہے جو شَرِیعَت کے ماتحت ہیں تاکہ ہر ایک کا مُنہ بند ہوجائے اور ساری دُنیا خُدا کے نزدِیک سزا کے لائِق ٹھہرے۔ کیونکہ شَرِیعَت کے اعمال سے کوئی بشر اُس کے کے حضُور راستباز نہیں ٹھہریگا۔ اِس لئے کہ شَرِیعَت کے وسیلہ سے تو گناہ کی پہچان ہوتی ہے۔‘‘

انصاف کہاں ہے؟

                اِس طرح اُن کی شکایت، کہ وہ اچھے لوگ ہیں جن کے ساتھ  کسی نہ کسی طور سے  بُرا سلوک کیا گیا۔ان کے کان بہرے ہو چکے ہیں۔یہاں تک  کہ وہ اپنی شکایت میں ثابت قدم رہے۔انہوں نے خود دوسروں کے ساتھ کوئی  نقصان دہ عمل نہیں کیا،جبکہ دوسرے جو خُدا کے فضل کا دعویٰ کرتے تھے قتل کر دیئے گئے  یا جن کو ستایا گیا وغیرہ وغیرہ۔ اِس میں انصاف کہاں ہے؟

                 اِس کا جواب یہ ہے کہ چاہیے مسیح کی صلیب  جہاں پر اُس میں ہمارے گناہوں کی خاطر دُکھ سہا  اور  منصف خُدا کے ہاتھوں اذیت سہی، وہ دوزخ میں گیا جو سزا یافتہ لوگوں کی جگہ ہے، تاکہ ہم اُس عدالت میں سے نہ گزریں — یا یہ اُس دِن میں ہے جب لوگ مسیح کے بغیر  روزِ عدالت خُدا کے سامنے کھڑے ہوں  گے اور اُنہیں ابدی موت کی سزا سنائی جائے گی۔  اِس طرح کے لوگ قوم سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ کہ خُدا،  مسیح کے ذریعے، گناہگاروں کو معاف کرسکتا ہے اور معاف کرے گا۔میں اُنہیں غور کرنے کے لیے بلاتا ہوں۔ وہ زندگی موت ، مسیح کا دوبارہ زندہ ہونا اور پینتی کوست کے دِن وجہ کے ساتھ  زندگی سے بیزار ہورہے ہیں۔ اگر اُن کی شکایت درست ہے۔ جو کہ نہیں ہے، تو وہ معاف نہیں کیے جائیں گے اور اُن کا آگے دیکھنے کے لیے  فردوس میں کوئی گھر نہیں ہوگا۔ اگر وہ خُدا   کے سامنے کھڑے ہونے کی  نیت رکھتے ہیں۔ اور اُس کے ساتھ  تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ جیسا کہ وہ اکثر میرے ساتھ کرتے ہیں۔  کہ وہ  اچھے لوگ ہیں۔ اور اُن پر فنا پذیری  کی  عدالت کا کوئی حق نہیں ہے کہ خُدا نے اُن کے ساتھ باغِ عدن میں  ملنا ترک کر دیا،  پھر  اُن پر ترس کھایا گیا— اور مزید زیادہ۔ آئیں مزید دیکھتے ہیں کہ راستبازی

اور انصاف کہاں ہیں، وہ کیا ہیں، اور وہ کیسے ہمارے پاس آتے ہیں:  

رومیوں 28-21:3 مگر اَب شَرِیعَت کے بغَیر خُدا کی ایک راستبازی ظاہِر ہُوئی ہے جِس کی گواہی شَرِیعَت اور نبِیوں سے ہوتی ہے۔یعنی خُدا کی وہ راستبازی جو یِسُوع مسیح پر اِیمان لانے سے سب اِیمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ کچھ فرق نہیں۔اِس لئے کے سب نے گناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محرُوم ہیں۔مگر اُس کے فضل کے سبب سے اُس مخلصی کے وسِیلہ سے جو مسیح یِسُوع میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔اُسے خُدا نے اُس کے خُون کے باعِث ایک اَیسا کفّارہ ٹھہرایا جو اِیمان لانے سے فائِدہ مند ہو تاکہ جو گناہ پیشتر ہوچُکے تھے اور جِن سے خُدا نے تحمل کر کے طرح دی تھی اُن  کے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہِر کرے۔بلکہ اِسی وقت اُس کی راستبازی ظاہِر ہو تاکہ وہ خُود بھی عادِل رہے اور جو یِسُوع پر اِیمان لائے اُس کو بھی راستباز ٹھہرانے والا ہو۔پَس فخر کہا رہا ؟ اِس کی گنجایش ہی نہیں۔ کونسی شَرِیعَت کے سبب سے ؟ کیا اعمال کی شَرِیعَت سے ؟ نہیں بلکہ اِیمان کی شَرِیعَت سے۔چُنانچہ ہم یہ نتیجہ نِکالتے ہیں کہ اِنسان شَرِیعَت کے اعمال کے بغَیر اِیمان کے سبب سے راستباز ٹھہرتا ہے۔

            خُدا عادل اور مطالبہ کرتا ہےکہ بُرائی اور بُرائی کے مرتکب ہونے والوں کی سزا دی گئی۔ جس کی وجہ سے جب یسوع نے دُعا کی کہ خُدا  اُسے صلیب کی اذیت  کے حوالے نہ کرے، خُدا  نے یہ نہیں سنُا۔  لوگوں کے گناہ  بہت زیادہ نفرت انگیز تھے  مسیح نے وہ لے لیے۔ یہ اُن کے خلاف نہیں ہےجو لوگ  گناہ کرتے ہیں وہ گناہگار بھی ہیں،  یہ خُدا کے خلاف ہے جو لوگوں نے گناہ کیا۔ اور یہ خُدا کا کام ہے کہ اس نے چاہا  کہ یسوع مسیح کی موت کے ذریعے سے اپنا انصاف پورا کرے۔تاکہ وہ ہمیں زندگی دے اگر ہم صلیب کے پاس آتے ہیں اور مسیح میں مرتے ہیں۔ یہ مسیح پر ہے نہ کہ ہم پر کہ وہ ہمارے لیے یہ کرتا ہے — خُدا کا شکر ہو!

جو ابھی تک  مرا نہیں اور تبدیل نہیں ہوا   

                 حقیقت یہ کہ اپنے آپ پر ترس کھانے والے لوگوں کو خُدا کے فضل کے ساتھ مشکل رہتی ہے اُس کا عدل اُن کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ خُدا کے لیے اِس  کے بارے میں مفاہمت کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔جہاں تک  برائیوں کا تعلق ہے جو انسان کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسیحیوں کا اقرار، پرانی فطرت ابھی تک پرانی فطرت ہے۔ جب مسیحی لوگ روح سے نکل جاتے ہیں۔ ( جیسا کہ وہ اپنی تلخی اور اُن  کے خُدا کے خلاف الزامات) اور جسم میں چلتے ہیں، اُن کی ضرورتیں اور کردار ابھی تک اتنے ہی بُرے ہیں جتنے کہ پہلے تھے۔

نہیں، نہیں، نہیں، میرے دوست!

            ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو میری بات پر اعتراض بھی ہو کہ خُدا کی سے بے قدری کے انداز میں سوال کرنا بُری بات ہے۔ اچھا، جو یہ کہا گیا ہے یہ میرے لیے نہیں ہے ، لیکن خُدا اور رسول کے لیے ہے۔ سنو: رومیوں 20-19:9 ’’پَس تُو مُجھ سے کہے گا پِھر وہ کیُوں عَیب لگاتا ہے؟ کَون اُس کے اِرادہ کا مُقابلہ کرتا ہے؟۔ اِنسان بھلا تُو کَون ہے جو خُدا کے سامنے جواب دیتا ہے؟ کیا بنی ہُوئی چِیز بنانے والے سے کہہ سکتی ہے کہ تُو مُجھے کیُوں اَیسا بنایا؟‘‘

مخلوق کے لیے یہ ایک  خطرناک بات ہے  کہ وہ خالق پر نقطۂ چینی کرے۔

عبرانیوں 11-7:3’’پَس جِس طرح کہ رُوحُ القدُس فرماتا ہے اگر آج تُم اُس کی آواز سُنو۔ تو اپنے دِلوں کو سخت نہ کرو جِس طرح غُصّہ

دِلانے کے وقت آزمایش کے دِن جنگل میں کیا تھا۔ جہاں تمہارے باپ دادا نے مجھے جانچا اور آزمایا اور چالیس برس تک میرے کام دیکھے۔ اِسی لئے میں اُس پُشت سے ناراض ہُؤا اور کہا کہ اِن کے دِل ہمیشہ گمراہ ہوتے رہتے ہیں اور اُنہوں نے میری راہوں کو نہیں پہچانا۔ چُنانچہ میں نے اپنے غضب میں قَسم کھائی کہ یہ میرے آرام میں داخل نہ ہونے پائیں گے۔‘‘

خُدا بڑے رحم کے ساتھ اپنے لوگوں کودوسرا درجہ نہیں دیتا  اور اُن پر سوال نہیں اُٹھاتا ۔وہ توقع کرتا ہے کہ وہ جان جائیں گے اور ایمان رکھیں گے کہ وہ خُدا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ وہ کر رہا ہے۔

بُرے کاموں کے متعلق ابھی حتمی  کلام نہیں کیا گیا

مسیحیوں کو بُرائی کا حساب دینا ہو گا۔ کہ وہ کیا کرتے ہیں اور اُن چیزوں کے بارے میں بہت زیادہ اذیت برداشت کرنا پڑے گی۔اگر وہ حقیقت میں توبہ کرتے ہیں اور مسیح کے پاس آتے ہیں تو وہ جنت الفردوس میں جائیں گے لیکن ان کے پاس کچھ نہیں ہو گا۔یہ I کرنتھیوں 15-11:3 میں بڑے واضح ا نداز میں سمجھایا  گیا ہے ،’’ کیُونکہ سِوا اُس نیو کے جو پڑی ہُوئی ہے اور وہ یِسُوع مسیح ہے کوئی شَخص دُوسری نہیں رکھ سکتا۔اور اگر کوئی اُس نیو پر سونا یا چاندی یا بیش قیمت پتھروں یا لکڑی یا گھاس یا بھُوسے کا ردا رکھّے۔تو اُس کا کام ظاہِر ہو جائے گا کیُونکہ جو دِن آگ کے ساتھ ظاہِر ہوگا وہ اُس کام کو بتا دے گا اور وہ آگ خُود ہر ایک کا کام آزما لے گی کہ کیسا ہے۔جِس کا کام اُس پر بنا ہُؤا باقی رہے گا وہ اجر پائے گا۔اور جِس کا کام جل جائے گا وہ نُقصان اُٹھائے گا لیکن خُود بچ جائے گا مگر جلتے جلتے۔‘‘

ہم سے  تمام گناہوں کے بارے میں  غیر متحرک ہونے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ جو مسیحی کرتے ہیں اور نظم و ضبط ہیں جو ہر صورت میں ہونا ہے یا ہونا چاہیے  کلیسیاء میں یہ جاری رہنا چاہیے۔

گناہ کے متعلق حتمی کلام کر دیا گیا ہے

                لیکن یہ لوگوں کے لیے موزوں  نہیں ہے کہ وہ حقیقت کے متعلق غصّہ میں آئیں۔ کہ مسیح گناہگاروں کو بچانے کے لیے مرا۔اِس کی وضاحت رومیوں 10-6:5 میں کی گئی ہے۔ یہ دوسروں کے درمیان میرے اور تمہارے متعلق بات کر رہی ہے۔’’کیُونکہ جب ہم کمزور ہی تھے تو عَین وقت پر مسیح بے دِینوں کی خاطر مُئوا۔ کسی راستباز کی خاطر بھی مشکل سے کوئی اپنی جان دے گا مگر شاید کسی نیک آدمی کے لئے کوئی اپنی جان تک دے دینے کی جُرأت کرے۔ لیکن خُدا اپنی محبّت کی خُوبی ہم پر یُوں ظاہِر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مُئوا۔ پَس جب ہم اُس کے خُون کے باعِث اَب راستباز ٹھہرے تو اُس کے وسیلہ سے غضب اِلہٰی سے ضرُور ہی بچیں گے۔ کیُونکہ جب باوُجُود دُشمن ہونے کے خُدا سے اُس کے بَیٹے کی موت کے وسِیلہ سے ہمارا میل ہوگیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اُس کی زِندگی کے سبب سے ضرُور ہی بچیں گے۔‘‘

            ہم خُدا کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے، وہ ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔ اُس نے ہمیں اُس وقت بچایا جب ہم اُس کے دشمن تھے، بڑی کوشش کے ساتھ اُس کے خلاف  کاموں میں مشغول رہتے تھے، ہم گناہگار تھے اور اِس کے باوجود  کہ لو گ کیا سوچتے ہیں،  اِس کو تنبیہ کرنے کے لیے ہم میں کچھ بھی اچھا نہیں تھا، جیسا کہ رومیوں 20-10:3  میں کہا گیا ہے۔ جنت میں کوئی غیر راستباز شخص نہیں ہو گا،اور یہاں تک کوئی بھی تلخ اور معاف نہ کرنے والا شخص نہیں ہو گا۔یہ سب کچھ خُدا کی محبت اور فضل  اور انصاف اور  عدالت اورچھٹکارہ کا باعث ہو گا جو یسوع مسیح میں ہے۔

غیر مراعات یافتہ اور محروم لوگوں کے بارے میں ؟

          شاید یہ سب کچھ سچ ہے، لیکن  تیسری دُنیا کے ممالک کے بارے کیا ہے جہاں پر نہ خوراک ، نہ پانی ، نہ گھر، نہ عوامی تحفظ ہے ننگا پن اور عام افراتفری ہے؟ کیا یہ خُدا کی عدالت ہے ،اور اگر یہ ہے،تو پھر اِس کی مصالحت کیسے ہو گی؟ قوموں  اور معاشروں کے خلاف خُدا کا فیصلہ اِس بنیاد پر  ہے  کہ وہ انجیل  کیسا رویہ اور اُس کے بارے میں علم  رکھتے ہیں یا وہ رَد کیے گئے ،  غلط سلوک رکھا گیا اور اِس سے نفرت کی گئی۔نبیوں کی تحریروں میں اِس بارے میں بڑا انتباہ ہے۔ قدرتی علم الہی  ( فطرت کی گواہی کے ذریعے سے  خدا کے وجود کا فطری علم) کسی بھی انسان کو بچانہیں پائے گا یا  روزِ قیامت اعلیٰ پائے کے سوال کا جواب نہیں جان پائے گا۔لیکن   یہ اخلاقی معاشرے کی خصوصیات  کے بارے میں تاثیر رکھتا ہے۔ تاریخی راسخ العقیدہ مسیحت  نے کبھی بھی یقین نہیں رکھاکہ معاشرے کو  فطری الہیات کے ذریعے سے تعلیم دینا کلیسیاء کے مقاصد میں سے ہے۔ اگرچہ رومن کیتھولک اور دوسرے مذہبی فرقے ہیں۔ یہاں تک  ، کہ یہاں خُدا کا فطری علم ہے۔ مزید  اضافے کے طور پر  ، یہاں پر بہت سے ثبوت ہیں کہ مسیح کی خوشخبری   نے ایک دفعہ اُن علاقوں میں ترقی پائی۔ مثال کے طور پر، بورنیو میں، ڈائیک بُری روحوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے زمین  میں فصل  بونے سے پہلے اُس پر خون چھڑکتا تھا۔ واضح طور پر یہ ایک گمراہی ہے ، بہت صدیوں سے یسوع مسیح کا خون  گناہوں کو دھوتا ہے۔  ہندوستان میں ، گائے کی پوجا کی جاتی ہے،  جو پرانے عہد نامہ کی سرخ بچھڑی  کا بقیہ ہے اور ہندو کیلوں کے بستر پر ساری دِن لیٹتے ہیں تاکہ قدوسیت حاصل کریں۔ یہ پولوس رسول کی یسوع مسیح کی اذیتوں کی تعلمات کی بگڑی ہوئی شکل ہے اور اِس طرح سے گناہوں کو ترک کیا جاتا ہے ( I۔پطرس 2:4 )۔علمِ بشریات کے ا یسے ثبوت ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔

                یہ غفلتیں اور برائیاں  معروضی اور موضوعی درجے  دونوں پر خُدا کی عدالت لاتی ہیں۔ خُدا کا مذاق نہیں اُڑایا جا سکتا اور نہ ہی اُس کی تحقیر کی جا سکتی ہے۔ بڑی اور مزید قومیں اُسے اور اُس کی  سچائی کو تحقیر  کے زُمرے میں لیتی  ہیں،  مزید یہ کہ وہ اُس کی شریعت سے بہت دور چلے جاتے ہیں،اور مزید یہ کہ اُن کو رحجان دیوتاؤں اور جادوگروں کی طرف  ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ خُدا کی برکتوں اور مہربانیوں سے دور ہو جاتے ہیں۔ وہ جس طرح یہ  کام کرتا ہےاُسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ اور پھر کہ انسان خُدا اور اُس کی شریعت سے سیکھتاہے اور مزید یہ کہ وہ اپنے معاشرے کو تباہی اور گلنے سڑنے کی طرف لے آتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ رومن  سلطنت  اِس کے بغیر  نہیں گری بلکہ اِس میں رہ کر گری  ، جیسا کہ بنیاد اندر سے کھوکھلی ہو گئی اور اپنے ہی سوراخ سے ختم ہو گئی۔  یہ ہے جو بہت سی ترقی پذیر،  زیرِ تعمیر، اور کنگال ملکو ں میں وقوع پذیر ہوا ۔ اور جب یہ ہوتا ہے ، جرائم، تشدد ، غیر انسانی ، جذبات سے عاری حکمران ، سماجی ڈھانچے کی تباہی اور تما م دوسری غیر خواہشمند مقامی اور معاشرتی  برائیوں کا پیچھا کرتے ہوئے آتی ہیں۔قومی  مالی حالت گڑھے میں گر جاتی ہے اور کوئی  نوکریاں  اور سماجی خدمت کے لیے  پیسہ نہیں ہوتا۔ یہ کٹائی کا اصول ہے ۔ یہ بونا اور کاٹنا ہے اور یہ بنیادی مشکل کی طرف واپس ہو جاتی ہے جو آدم اور حوا  اپنے بچوں کے سروں پرلائے۔ یہ ہے وہ جہاں سب کچھ شروع ہوا۔ 

قیامت کی غیر منصفانہ درخواست

          لیکن  ہم اِسے کیسے درست ثابت کر سکتے ہیں۔اور بے انصافی کی وضاحت کر سکتے ہیں۔  کہ جو ہم دیکھتے ہیں جب بُری باتیں واقع ہوتی ہیں؟  کچھ لوگوں کے لیے ہمیشہ یہ بُری ہوتی ہیں  جب کہ دوسروں کے لیے اِس ناطے سے یہ بڑی خوش قسمت  لگتی ہیں۔ اِس کا جواب بڑے جامع طور پر واعظ 11:9 کی آیت میں دیا گیا ہے،’’پھر میں نے توجہ کی اور دیکھا کہ دُنیا میں نہ تو دَوڑ میں تیز رفتار کو سبقت ہے نہ جنگ میں زورآور کو فتح اور نہ روٹی دانِش مند کو ملتی ہے نہ دَولت عقلمندوں کو اور نہ عِزت اہلِ خِرد کو بلکہ اُن سب کے لئے وقت اور حادثہ ہے۔‘‘

             ایک نامکمل دُنیا میں جہاں پر بے قابو قوتیں کام پر ہیں۔ جن کو دیکھنے کے لیے شاید ہی ہم توقع کریں  شاذونادر ہی وہ آ پہنچے گا۔ اگر تم بارش کے بعد   پہاڑ کے ساتھ سڑک پر سفر کر رہے ہو، ہو سکتا ہے کنارے سے پہاڑ تھوڑا سا خستہ ہو گیا ہو اور سر پر گر جائے۔ اِس کے لیے کوئی پہلے سے منصوبہ بندی نہیں تھی۔  یہ موقع تھا اور وقت تھا۔ صرف آپ غلط وقت پر غلط جگہ پر ہو سکتے ہو اور اِس حادثے کے  ہونے کے موقع پر تم حالات کے مطابق وہاں پر پہنچا دئیے گئے۔ یقینی طور پر خُدا  اسے قابو میں رکھتا ہےلیکن، عمل کے مطابق ، خُدا نے دُنیا کو خلق کیا جہا ں پر کچھ چیزیں واقع ہوئیں  کیونکہ انہوں نے ہونا ہے۔ ایک آدمی لاس اینجلس میں ایک گلی میں چل رہا ہے اپنے کا م میں مگن، جب دو کاریں بڑی تیز رفتاری سے آ رہی تھیں پچھلی کار نے  کار کے سامنے کی طرف سے فائرنگ کیا ۔ گن مین کا نشانہ اتنا اچھا نہیں تھا۔ اور وہ پاس سے گزرنے والے شخص کو نشانہ بنا بیٹھا ۔ایسا کیوں ہوا؟ یہ اِس لیے ہوا کیونکہ دُنیا میں چیزیں اسی طریقہ سے ہوتی ہیں۔یہی بات ہے جو سلیمان بادشاہ نے ہمیں بتائی ہے۔تم ایک گلی میں ادِھر اُدھر پھر رہے ہو۔ تم نے  درخت پر بیٹھے ہوئے ایک پرندے کو دیکھا، تم نے اپنے پاؤں کے سامنے والےحصّے سے ایک پتھرکو  ٹھوکر ماری اور توڑ دیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایسا اِس لیے ہوا کہ تم اپنے قدموں کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔ اِس کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔طوفانِ بادوباراں  اپنے راستے پر چلتے چلتے  گھوم جاتا ہے ، تمہاری وادی میں بھی آتا ہے ۔ اور تمہارے پڑوس میں تمام گھروں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟یہ اِس لیے ہوا کیونکہ تمہارے گھر اُس کے راستہ میں تھے۔تم گھاس کے خوبصورت میدان میں سیر  کر رہے ہو  کہ تمہارے پاؤں میں ایک کانٹا چبھ جاتا ہے ۔ ایسا کیوں ہوا؟ اِس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ یہ باتیں موقع اور وقت کی وجہ سے ہیں۔ یہ آدم اور حوا کی دُنیا کی طرح ہے جو ہمارے لیے چھوڑی گئی ہے۔ پیدائش کے تیسرے باب کے مطابق ، اگر آدم اور حوا وہ کچھ نہ کرتے تو بدمعاش گلیوں میں اپنی بندوقوں کے ساتھ نہ پھرتےاور میدان میں کوئی کانٹا نہ ہوتا لیکن انہوں نے ایسا کیا ، اور خُدا  ظاہر ہونے والے وقت اور دُنیا کی تاریخ کے آگے  وقت اور موقع کے لحاظ سے بند نہیں باندھے گا  جب تک وہ اِس سب کچھ کو روکتا نہیں ہے۔ یہ ہو گا، اور اِس کے لیے خُدا کا شکر ہے ، لیکن اسی اثناء میں ، ہم  غیر متوقع طور پر ظاہر ہونے والے واقعات سے محفوظ کیے جانے والے ہیں۔ کہ سلیمان  ، ایک قدیم عقل مند انسان   نے بیان کیا ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ، بہت سوں کے لیے  آخر کار ، یہ متبادل سے بہتر ہے۔

لیکن کیا خُدا  نہیں جانتا تھا  ؟

            لوگ اکثر مجھ سے شکایت کرتے ہیں اورانسان کی تخلیق اور پرانے عہد نامہ کے بہت سے ناکام عہود کے بارے میں  سوال پوچھتے ہیں:کیا خُدا نہیں جانتا تھا کہ یہ واقع ہو گا؟بائبل کہتی ہے کہ وہ عالم الغیب اور قادرِ مُطلق ہے۔ اور اِس لیے وہ سب کچھ جانتا ہے جو وقوع پذیر ہونے والا ہے۔ تو اِس نقطے کا کیا مطلب ہے؟

                بے شک خُدا جانتا ہے کہ کیا ہوگا۔ لیکن صرف یہی ایک راستہ تھا  وہ چاہتا ہے کہ خُدا کی شبیہ پر  راستباز لوگوں کواپنےالہی خاندان میں لے سکے۔  وہ لوگ جو خدا کی سوچ کے طریقے پر  شکایت اور تنقید کرتے ہیں  کہ وہ  بہتر پروگرام کے ساتھ آ سکتے  تھے؟مہربانی سے کہہ دو کہ ایسا  

نہیں ہے!

                خُدا بطور مخلوق ہمیں ختم کرنے پر راضی تھا تاکہ ہمیں واپس بچے کے طور پر پیدا کرے۔ یہ ایک راستہ بھی تھا  کہ وہ اُن کو خُدا کی بادشاہی سے نکال دے جوہمیشہ کے لیے اُس کے فرزند بننا نہیں چاہتے۔ انسانیت شکایت لگانے کا کوئ اختیار نہیں رکھتی۔ اگرہم وہ  کریں جو انصاف کا تقاضہ ہے ، تو ہم سب اُس راستہ پر ہوں گے جو دوزخ کو جاتا ہے۔ ہم قانون شکن ، گناہگار ، اور اپنی ناکامیوں کا الزام خُدا پرلگانے والے ہیں ۔خُدا واحد ہے جو ناخوش  ، گھائل  اور آزردہ ہواہے ۔ لیکن خُدا کے لیے اب یقین کرنا مشکل ہے۔جب یہ سب کہا گیا اور کیا گیا، خُدا وہ کرے گا جو وہ چاہتا ہے۔جو خُدا سے محبت کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ خُدا جانتا ہے کہ صرف وہ بھلا ہے اور کبھی غلط کام نہیں کر سکتا۔ وہ  مسیح اور نجات کےناقابلِ بیان  تحفے کی وجہ سے اُس کا احترام کرتے اور ستائش کرتے ہیں۔ آخر میں ، اُن کے پاس وہی کچھ ہوتا ہے جو وہ چاہتے ہیں — ہمیشہ کے لیے!

کون ذمہ دار ہے

’’مطلب یہ ہے کہ خُدا نے مسیح میں ہوکر اپنے ساتھ دُنیا کامیل ملاپ کر لِیا اور اُن کی تقصِیروں کو اُن کے ذِمہ نہ لگایا اور اُس نے میل مِلاپ کا پَیغام ہمیں سَونپ دِیا ہے۔پَس ہم مسیح کے ایلچی ہیں۔ گویا ہمارے وسیلہ سے خُدا اِلتماس کرتا ہے۔ ہم مسیح کی طرف سے منّت کرتے ہیں کہ خُدا سے میل مِلاپ کر لو۔‘‘ (-II کرنتھیوں 20-19:5 )

یہ کہا جاتا ہے کہ لینارڈو ۔ڈی۔  ونسی ایک دفعہ مسیح کے صلیب دی دیئے جانے کی ایک تصویر بنا رہاتھا۔ کہ اُس نے ایک یقینی روشنی  اور ایک یقینی زاویے کو دیکھا۔ یہ ایسا لگا کہ جیسے یسوع مسیح کے ساتھ صلیب پر کوئی اور قوت بھی ہے۔ یہ اُس کا II۔کرنتھیوں 20-19:5   کی سچائی کو  ظاہر کرنے کے  آرٹ کا ایک طریقہ تھا ۔دلیل یہ ہے  کہ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ خُدا کا ہی  ایک قصور تھا۔آپ کسی بھی طریقہ سے اِس کو دیکھنا چاہو۔ دلیل موجود ہے خُدا اِسے قائم رکھتا ہے اُسے ہر بات کا علم ہے جو کچھ ہونے جا رہا ہے۔اِس لیے، خُدا کو الزام لینا چاہیے۔ وہی ایک ہے جسے مصیبت سہنی چاہیے۔اِس دعویٰ کے مطابق مسیحی کو صرف صلیب کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ جب خُدا نے عمل شروع کیا، وہ جانتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ کہ دُنیا  کو بنانے سے پہلے  صلیبی عمل  پر سوچ بچار کی گئی  اور منصوبہ بنایا گیا۔خُدا نے الزام کوقبول کر لیا۔ اُس نے دُکھ اُٹھایا۔کیل جو انسان یسوع کے ہاتھوں میں ٹھونکے گئے اصل میں وہ کیا خُدا کے ہاتھوں میں  ٹھونکے گئے۔خُدا مسیح کے اندر تھا،دُنیا کی مفاہمت اُس کے سامنے تھی۔ اِس سے پہلے کسی انسان نے اِس طرح کی اذیت نہیں سہی تھی۔ اور نہ ہی کوئی اِس طرح کی اذیت کو سہہ پائے گا۔ وہ جو گناہ سے واقف نہیں تھا اُس نے ہمارے گناہ اپنے اوپر اُٹھا لیے۔ تاکہ ہم اُس کی راستبازی میں شامل ہو جائیں۔ اور ہمیشہ کے لیے دُنیا سے لطف اندوز ہوں۔جہاں پر دوبارہ  کم تر چیزیں نہیں ہوں گی۔ اب دعوت ِ عام چل رہی ہے یہاں تک اُس کے نقادوں کے لیے بھی، کہ وہ خُدا کے مصائب کو ہماری خاطر  قبول کرے اور صلیب کے ذریعے اُس کے ہماری مفاہمت کروائے۔

اختتامیہ ٍٍ

                بُری باتیں ہمارے قدیم آباؤاجداد کی  گمراہی اور موت اور اذیتوں کی وجہ سے ہمارے ساتھ ہوتی ہیں۔ جو اپنے بچوں پر لائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے آپ پر افسوس کریں کہ ہم اکیلے ہو گئے ہیں اور ہمارے اعمال اور خیالات  کی وجہ  سے ہم پر بُری باتوں کے فیصلے کی توثیق ہوئی

ہے۔

                بُری چیزیں اور باتیں اچھے لوگوں کے ساتھ نہیں ہوتی کیونکہ ہم میں سے تو کوئی اچھا ہے نہیں۔(رومیوں 10:3 اور 14 )۔ فنا پذیری کی اذیتیں، مسیحیوں کے لیے  اچھے چال چلن کی وجہ سے  اِن کی تلافی ہو سکتی ہے۔ہم اپنی پرانی زندگی  رہن کی بُرائی کی دوکانوں سے خرید سکتے ہیں۔ جہاں پر ہمارے قدیم آباؤ اجداد نے اُنہیں لٹکا رکھا ہے ۔اگر ہم وہ لیتے ہیں ہم کس کے حقدار ہیں ، توہم خُدا کی آخری عدالت کے آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ اگر ہم وہ لیتے ہیں تو اب ہم کس کے حقدار ہیں ، تو ہمیں کوئی دوائی ایذا رسانیوں سے آرام نہیں دے سکتی۔کوئی ہمدرد دوست  ہماری  مشکلات کے بارے میں نہیں بتاسکتا، کوئی دُعا خُدا کے ساتھ ہمارا تعلق نہیں جوڑ سکتی۔ اور سکون نہیں دے سکتی۔ اور مستقبل کے بارے میں کوئی اُمید نہیں ہوتی۔ کھانے کے لیے کوئی خوراک نہیں ، پینے کے لیے کوئی پانی نہیں۔ سونے کے لیے کوئی بستر نہیں اور سروں پر پناہ کے لیے کوئی چھت نہیں  جو ہمیں حالات سے محفوظ رکھ سکے۔

                اچھے طریقے سے بھی خُدا پر تنقید کرنے میں احتیاط برتیں کہ وہ باغیوں ، گناہگار اور  ناشکرے لوگوں سےسلوک کرتا ہے۔ یہ خُدا کو متاثر نہیں کر سکتا۔  جو چیزیں چل رہی ہیں یہ اُن میں تبدیلی نہیں کر سکتا، اور یقینی طور پر یہ تمہاری  مدد نہیں کر سکتا— تو پھر یہ کیوں کیا جائے؟

                خُدا ہمارے خالق اور ہمارے نجات دہندہ کا فضل، رحم ، محبت اور فکر تمہارے ساتھ رہے آمین

bottom of page